19۔بشیر احمد،شریف احمداور مبارکہ کی آمین

بشیر احمد،شریف احمداور
مبارکہ کی آمین
خدایا اے
میرے پیارے خدایا
یہ کیسے
ہیں ترے مجھ پر عطایا

کہ تو نے پھر مجھے یہ دن دکھایا
کہ بیٹا
دوسرا بھی پڑھ ک
ے آیا

بشیر احمد جسے تونے پڑھایا
شفا دی
آنکھ کو بینا بنایا

شریف احمد کو بھی یہ پھل کھلایا
کہ اُس کو
تونے خود فرقاں سکھایا

یہ چھوٹی عمر پر جب آزمایا
کلامِ حق
کو ہے فَرفَر سنایا

برس میں ساتویں جب پَیر آیا
تو سر پر
تاج قرآں کا سجایا

ترے احساں ہیں اے ربّ البرایا
 مبارک کو بھی پھر تونے جلایا

جب اپنے پاس اک لڑکا بلایا
تو دے کر
چار جلدی سے ہنسایا

غموں کا ایک دن اور چار شادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

اور اِن کے ساتھ دی ہے ایک دُختر
ہے کچھ کم
پانچ کی وہ نیک اَختر

کلام اللہ کو پڑھتی ہے فَرفَر
خدا کا
فضل اور رحمت سراسر

ہوا اِک خواب میں یہ مجھ پہ اَظہر
کہ اس کو
بھی ملے گا بختِ برتر

لقَب عزت کا پاوے وہ مُقَرَّر
یہی روزِ
اَزَل سے ہے مقدَّر

خدا نے چار لڑکے اور یہ دُختر
عطا کی ،
پس یہ اِحساں ہے سراسر

یہ کیا اِحساں ترا ہے بندہ پرور
کروں کس
منہ سے شکر اے میرے داور

اگر ہر بال ہو جائے سُخَن ور
تو پھر
بھی شکر ہے اِمکاں سے باہر

کریما! دور کر۔ تو اِن سے ہر شر
رحیما!
نیک کر۔ اور پھر معَمَّر

پڑھایا جس نے اُس پر بھی کرم کر
جزا دے
دین اور دنیا میں بہتر

رہِ تعلیم اِک تو نے بتا دی1
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

دیے ہیں تُو نے مجھ کو چار فرزند
اگر چہ
مجھ کو بس تجھ سے ہے پیوند

بنا ان کو نِکو کار و خردمند
کرم سے
اِن پہ کر راہِ بدی بند

ہدایت کر اُنہیں میرے خداوند
کہ بے
توفیق کام آوے نہ کچھ پَند

تو خود کر پرورش اے میرے اَخوَند
وہ تیرے
ہیں ہماری عمر تا چند

یہ سب تیرا کرم ہے میرے ہادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

مرے مولیٰ مری یہ اَک دعا ہے
تری درگاہ
میں عجز و بُکا ہے

وہ دے مجھ کو جو اِس دل میں بھرا ہے
زباں چلتی
نہیں شرم و حیا ہے

مری اولاد جو تیری عطا ہے
ہر اک کو
دیکھ لوں وہ پارسا ہے

تری قدرت کے آگے روک کیا ہے
وہ سب دے
اُن کو جو مجھ کو دیا ہے

عجب محسن ہے تو
بَحرُ الاَیادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

نجات اِن کو عطا کر گندگی سے
بَرات اُن
کو عطا کر بندگی سے

رہیں خوشحال اور فرخندگی سے
بچانا اے
خدا!  بد زندگی سے

وہ ہوں میری طرح دیں کے منادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

عیاں کر اُن کی پیشانی پہ اقبال
نہ آوے
اُن کے گھر تک رُعبِ دجال

بچانا اُن کو ہر غم سے بہر حال
نہ ہوں وہ
دکھ میں اور رنجوں میں پامال

یہی اُمید ہے دل نے بتا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

دعا کرتا ہوں اے میرے یگانہ
نہ آوے
اُن پہ رنجوں کا زمانہ

نہ چھوڑیں وہ ترا یہ آستانہ
مرے مولیٰ
انہیں ہر دم بچانا

یہی اُمید ہے اے میرے ہادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

نہ دیکھیں وہ زمانہ بے کسی کا
مصیبت کا،
الم کا، بے بسی کا

یہ ہو، میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا
جب آوے
وقت میری واپسی کا

بشارت تو نے پہلے سے سنا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

ہمیں اُس یار سے تقویٰ عطا ہے
نہ یہ ہم
سے کہ اِحسانِ خدا ہے

کرو کوشش اگر صدق و صفا ہے
کہ یہ
حاصل ہو جو شرطِ لِقا ہے

یہی آئینہ ء خالق نما ہے
یہی اِک
جوہرِ سیفِ دعا ہے

ہر اِک نیکی کی جڑ یہ اِتِّقا ہے
”اگر یہ
جڑ رہی سب کچھ رہا ہے”   الہامی مصرعہ

یہی اک فخرِ شانِ اَولیاء ہے
بجز تقویٰ
زیادت ان میں کیا ہے

ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے
اگر سوچو،
یہی دارُالجزاء ہے

مجھے تقویٰ سے اُس نے یہ جزا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

عجب گوہر ہے جس کا نام تقوٰی
مبارک وہ
ہے جس کا کام تقوٰی

سنو! ہے حاصلِ اسلام تقوٰی
خدا کا
عشق مَے اور جام تقوٰی

مسلمانو! بناؤ تام تقوٰی
کہاں
ایماں اگر ہے خام تقوٰی

یہ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد
بشارت تو
نے دی اور پھر یہ اولاد

کہا ”ہر گز نہیں ہوں گے یہ برباد
بڑھیں گے
جیسے باغوں میں ہوں شمشاد” الہامی مصرعہ

خیر مجھ کو یہ تو نے بارہا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

مری اولاد سب تیری عطا ہے
ہر اک
تیری بشارت سے ہوا ہے

یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیدہ ہے
یہی ہیں
پنج تن جن پر بِنا ہے

یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

"دیے تُو نے مجھے یہ مِہر و مَہتاب” الہامی مصرعہ
یہ سب ہیں
میرے پیارے تیرے اسباب

دکھایا تُو نے وہ اے ربِّ اَرباب
کہ کم
ایسا دکھا سکتا کوئی خواب

یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

میں کیوں کر گِن سکوں تیرے یہ اِنعام
کہاں ممکن
ترے فضلوں کا اِرقام

ہر اک نعمت سے تُو نے بھر دیا جام
ہر اک
دشمن کیا مردود و ناکام

یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

بشارت دی کہ اِک بیٹا ہے تیرا
جو ہو گا
ایک دن محبوب میرا

کروں گا دور اُس مَہ سے اندھیرا
دکھاؤں گا
کہ اِک عالَم کو پھیرا

بشارت کیا ہے اِک دل کی غذا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

مری ہر بات کو تُو نے جِلا دی
مری ہر
روک بھی تُو نے اُٹھا دی

مری ہر پیش گوئی خود بنا دی
تَرٰی
نَسْلاً بَعِیْداً
بھی دکھا دی

جو دی ہے مجھ کو وہ کس کو عطا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

بہار آئی ہے اِس وقتِ خزاں میں
لگے ہیں
پھول میرے بوستاں میں

ملاحت ہے عجب اس دلستاں میں
ہوئے
بدنام ہم اُس سے جہاں میں

عدُو جب بڑھ گیا شور و فُغاں میں
نہاں ہم ہو
گئے یارِ نہاں میں

ہوا مجھ پر وہ ظاہر میرا ہادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

کروں کیونکر ادا میں شُکرِ باری
فِدا ہو
اُس کی رہ میں عمر ساری

مرے سَر پر ہے مِنَّت اس کی بھاری
چلی اُس
ہاتھ سے کشتی ہماری

مری بگڑی ہوئی اُس نے بنا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

تجھے حمد و ثنا زیبا ہے پیارے
کہ تُو نے
کام سب میرے سنوارے

ترے احساں مرے سر پر ہیں بھارے
چمکتے ہیں
وہ سب جیسے ستارے

گڑھے میں تُو نے سب دُشمن اُتارے
ہمارے کر
دیے اُونچے منارے

مقابل پر مرے یہ لوگ ہارے
کہاں مرتے
تھے پر تُو نے ہی مارے

شریروں پر پڑے اُن کے شرارے
نہ اُن سے
رُک سکے مقصد ہمارے

اُنہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

تری رحمت ہے میرے گھر کا شہتیر
مری جاں
تیرے فضلوں کی پنہ گیر

حریفوں کو لگے ہر سمت سے تِیر
گرفتار آ
گئے جیسے کہ نخچیر

ہوا آخر وہی جو تیری تقدیر
بھلا چلتی
ہے تیرے آگے تدبیر

خدا نے اُن کی عظمت سب اُڑا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

مری اُس نے ہر اِک عزت بنا دی
مخالف کی
ہر اک شیخی مٹا دی

مجھے ہر قسم سے اُس نے عطا دی
سعادت دی،
اِرادت دی، وفا دی

ہر اک آزار سے مجھ کو شفا دی
مَرض
گھٹتا گیا جُوں جُوں دوا دی

محبت غیر کی دل سے ہٹا دی
خدا جانے
کہ دل کو کیا سُنا دی

دوا دی اور غذا دی اور قَبا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

مجھے کب خواب میں بھی تھی یہ اُمید
کہ ہو گا
میرے پر یہ فضلِ جاوید

ملی یوسفؑ کی عزت لیک بے قید
نہ ہو
تیرے کرم سے کوئی نَومید

مراد آئی۔ گئی سب نامرادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

تری رحمت عجب ہے اے مرے یار
ترے فضلوں
سے میرا گھر ہے گلزار

غریقوں کو کرے اِک دم میں تُو پار
جو ہو
نَومید تجھ سے۔ ہے وہ مُردار

وہ ہو آوارئہ ہر دشت و وادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

ہوئے ہم
تیرے اے قادرِ توانا
ترے دَر
کے ہوئے اور تجھ کو مانا

ہمیں بس ہے تری درگہ پہ آنا
مصیبت سے
ہمیں ہر دَم بچانا

کہ تیرا نام ہے غفّار و ہادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

تجھے دنیا میں ہے کِس نے پکارا
کہ پھر
خالی گیا قسمت کا مارا

تو پھر ہے کس قدر اُس کو سہارا
کہ جس کا
تو ہی ہے سب سے پیارا

ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

میں کیونکر گِن سکوں تیری عنایات
ترے فضلوں
سے پُر ہیں میرے دن رات

مری خاطر دکھائِیں تو نے آیات
ترَحُّم
سے مری سن لی ہر اک بات

کرم سے تیرے دشمن ہو گئے مات
عطا کیں
تو نے سب میری مرادات

پڑا پیچھے مرے جو غَولِ بد ذات
پڑی آخر
خود اُس مُوذی پہ آفات

ہوا انجام سب کا نامرادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

بنائی تُو نے پیارے میری ہر بات
دکھائے
تُو نے اِحساں اپنے دِن رات

ہر اک میداں میں دِیں تُو نے فُتوحات
بد
اندیشوں کو تُو نے کر دیا مات

ہر اک بِگڑی ہوئی تُو نے بنا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

تری نُصرت سے اب دشمن2 تبہ ہے
ہر اک جا
میں ہمارا تُو پنہ ہے

ہر اک بد خواہ اب کیوں رُوسیہ ہے
کہ وہ
مثلِ خسوفِ مِہر و مَہ ہے

سیاہی چاند کی مُنہ نے دکھا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

ترے فضلوں سے جاں بستاں سرا ہے
ترے نوروں
سے دل شمسُ الضحیٰ ہے

اگر اندھوں کو انکار و اِباء ہے
وہ کیا
جانیں کہ اِس سینہ میں کیا ہے

کہیں جو کچھ کہیں سر پر خدا ہے
پھر آخر
ایک دِن روزِ جزا ہے

بدی کا پھل بدی اور نا مُرادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

تجھے سب زور و قدرت ہے خدایا
تجھے پایا
ہر اِک مطلب کو پایا

ہر اِک عاشق نے ہے اِک بُت بنایا
ہمارے دِل
میں یہ دِلبر سمایا

وہی آرامِ جاں اور دِل کو بھایا
وہی جس کو
کہیں ربُّ البرایا

ہوا ظاہر وہ مجھ
پر بِالْاَیَادِی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

مجھے اُس یار سے پیوندِ جاں ہے
وہی جنت،
وہی دارالاماں ہے

بیاں اُس کا کروں طاقت کہاں ہے
مَحبت کا
تو اِک دریا رواں ہے

یہ کیا اِحساں ترے ہیں میرے ہادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

تری نعمت کی کچھ قلت نہیں ہے
تہی اس سے
کوئی ساعت نہیں ہے

شُمارِ فضل اور رحمت نہیں ہے
مجھے اب
شکر کی طاقت نہیں ہے

یہ کیا احساں ہیں تیرے میرے ہادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

ترے کوچہ میں کن راہوں سے آؤں
وہ خدمت
کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں

مَحبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں
خدائی ہے
خودی جس سے جلاؤں

مَحبت چیز کیا کس کو بتاؤں
وفا کیا
راز ہے کس کو سناؤں

میں اِس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں
یہی بہتر
کہ خاک اپنی اُڑاؤں

کہاں ہم اور کہاں دنیائے مادی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

کوئی اُس
پاک سے جو دِل لگاوے
کرے پاک
آپ کو تب اُس کو پاوے

جو مرتا ہے وہی زندوں میں جاوے
جو جلتا
ہے وہی مردے جِلاوے

ثمر ہے دُور کا کب غیر کھاوے
چلو اُوپر
کو وہ نیچے نہ آوے

نِہاں اندر نِہاں ہے کون لاوے
غَرِیقِ
عشق وہ موتی اُٹھاوے

وہ دیکھے نیستی، رحمت دکھاوے
خودی اور
خود روی کب اُس کو بھاوے

مجھے تو نے یہ دولت اے خدا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

کہاں تک حرص و شوقِ مالِ فانی؟
اُٹھو
ڈھونڈو متاعِ آسمانی

کہاں تک جوشِ آمال و اَمانی
یہ سَو
سَو چھید ہیں تم میں نِہانی

تو پھر کیونکر ملے وہ یارِ جانی
کہاں
غِربال میں رہتا ہے پانی

کرو کچھ فِکر ملکِ جاودانی
یہ ملک و
مال جھوٹی ہے کہانی

بسر کرتے ہو غفلت میں جوانی
مگر دل
میں یہی تم نے ہے ٹھانی

خدا کی ایک بھی تم نے نہ مانی
ذرا سوچو
یہی ہے زِندگانی؟

خدا نے اپنی رہ مجھ کو بتا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

کرو توبہ کہ تا ہو جائے رحمت
دکھاؤ جلد
تر صدق و اِنابت

کھڑی ہے سر پہ ایسی ایک ساعت
کہ یاد آ
جائے گی جس سے قِیامت

مجھے یہ بات مولیٰ نے بتا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

مسلمانو پہ تب اِدبار آیا
کہ جب
تعلیمِ قرآں کو بھلایا

رسُولِؐ حق کو مٹی میں سلایا
مسیحاؑ کو
فلک پر ہے بٹھایا

یہ توہیں کر کے پھل ویسا ہی پایا
اِہانت نے
اُنہیں کیا کیا دکھایا

خدا نے پھر تمہیں اب ہے بلایا
کہ سوچو
عزتِ خیرُ البرایا

ہمیں یہ رہ خدا نے خود دکھا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

کوئی مُردوں میں کیونکر راہ پاوے
 مرے تب بے گماں مردوں میں
جاوے

خدا عیسیٰ کو کیوں مردوں سے لاوے
وہ کیوں
خود مُہرِ خَتَمِیَّت مٹاوے

کہاں آیا کوئی تا وہ بھی آوے
کوئی اِک
نام ہی ہم کو بتاوے

تمہیں کس نے یہ تعلیمِ خطا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

وہ آیا منتظرِ تھے جس کے دن رات
معمّہ کھل
گیا روشن ہوئی بات

دکھائیں آسماں نے ساری آیات
زمیں نے
وقت کی دے دیں شہادات

پھر اس کے بعد کون آئے گا ہَیہات
خدا سے
کچھ ڈرو چھوڑو معادات

خدا نے اِک جہاں کو یہ سُنا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

مسیحِ وقت اب دنیا میں آیا
خدا نے
عہد کا دن ہے دکھایا

مبارک وہ جو اَب ایمان لایا
صحابہؓ سے
ملا جب مجھ کو پایا

وہی مَے ان کو ساقی نے پِلا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

خدا کا تم پہ بس لطف و کرم ہے
وہ نعمت
کون سی باقی جو کم ہے

زمینِ قادیاں اب محترم ہے
ہُجُومِ
خَلق سے اَرضِ حَرَم ہے

ظُہُورِ عون و نُصرت دَمبَدَم ہے
حَسد سے
دشمنوں کی پُشت خَم ہے

سنو اب وقتِ توحیدِ اَتم ہے
سِتَم اب
مائلِ مُلکِ عدم ہے

خدا نے روک ظلمت کی اُٹھا دی
فَسُبحَانَ
الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی
1۔قاعدہ یسرنا القرآن بچوں کے
لیے بیشک مفید چیز ہے۔اس سے بہتر اور کوئی طریقہ ء تعلیم خیال میں نہیں۔
2۔دشمن کے لفظ سے اس جگہ وہ
حاسدمرادہیں جو ہر یک طور سے مجھے تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں۔لوگوں کو میری نسبت بدظن
کرتے ہیں اور گورنمنٹ عالیہ  انگریزی میں
بھی جھوٹی شکایتیں کرتے ہیں اورگورنمنٹ محسنہ کی نسبت جو میرے مخلصانہ جذبات ہیں
ان کو چھپاتے ہیں۔منہ    
الحکم 10دسمبر1901ء

اپنا تبصرہ بھیجیں