یادِ ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

سینہ خوں سے بھرا ہوا میرا
اُف یہ بد مست مے کدہ میرا
نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نا رسا میرا
عشق کو منہ دکھاؤں گا کیونکر
ہجر میں رنگ اڑ گیا میرا
دلِ غم دیدہ پر خدا کی مار
سینہ آہوں سے چِھل گیا میرا
یاد کے تند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جل اٹھا میرا
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
منّتِ چرخ سے بری ہوں میں
نہ ہوا جیتے جی بھلا میرا
ہے بڑا شغل زندگی اخترؔ
پوچھتے کیا ہو مشغلہ میرا
اختر انصاری ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں